چلے مقتل کی جانب اور چھاتی کھول دی ہم نے
بڑھانے پر پتنگ آئے تو چرخی کھول دی ہم نے
پڑا رہنے دو اپنے بوریے پر ہم فقیروں کو
پھٹی رہ جائیں گی آنکھیں جو مٹھی کھول دی ہم نے
کہاں تک بوجھ بیساکھی کا ساری زندگی ڈھوتے
اترتے ہی کنوئیں میں آج رسی کھول دی ہم نے
فرشتو تم کہاں تک نامۂ اعمال دیکھو گے
چلو یہ نیکیاں گن لو کہ گٹھری کھول دی ہم نے
تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے
پرانے ہو چلے تھے زخم سارے آرزوؤں کے
کہو چارہ گروں سے آج پٹی کھول دی ہم نے
تمہارے دکھ اٹھائے اس لیے پھرتے ہیں مدت سے
تمہارے نام آئی تھی جو چٹھی کھول دی ہم نے
منور رانا