کنول جو وہ کنار آب جو نہ ہو کسی بھی اپسرا سے گفتگو نہ ہو قضا ہوا ہے ایک جسم بے طرح کہیں ہماری آنکھ بے وضو نہ ہو ہتھیلیوں میں بھر کے بات تو کریں چراغ کو مکالمے کی خو نہ ہو دمک رہا ہے کیسری حجاب سے اس آئینے میں کوئی ہو بہ ہو نہ ہو میں کیا کروں گا رہ کے اس جہان میں جہاں پہ ایک خواب کی نمو نہ ہو