کون سکھ چین سے ہے کس کی پذیرائی ہے تیری دنیا میں ہر اک موڑ پہ رسوائی ہے جھیل سی آنکھیں تری اور گلابی ترے ہونٹ میری چاہت کے ہی صدقے میں یہ رعنائی ہے میں جو چپ چاپ سا بیٹھا ہوں تری محفل میں یہ مرا شوق نہیں ضربت تنہائی ہے گھر میں گھٹ گھٹ کے ہی مر جاتے ہیں بیمار غریب اب شفا خانے میں اس اوج پہ مہنگائی ہے میں سمندر تو نہیں ادنیٰ سا شاعر ہوں مگر دریا سے بڑھ کے مرے شعر میں گہرائی ہے جان کر بھی نہیں پہچانتے ہیں شوقیؔ لوگ تیری بستی میں عجب طرز شناسائی ہے