کیا نحس تھا دن روز سفر ہائے حسینا
ناموس کو نے گھر ہے نہ در ہائے حسینا
اعوان ترے جو تھے انھیں کھا گئی تلوار
انصار ترے سب گئے مر ہائے حسینا
واماندہ ترے کہتے ہیں سر دیکھ کے تیرا
ہم کیونکے کریں عمر بسر ہائے حسینا
مدت تئیں کر یاد زمانے کو ترے ہم
روتے رہیں گے آٹھ پہر ہائے حسینا
ہم شام کو قیدی ہوچلے دیکھیے بارے
ہوتی ہے یہ شب کیونکے سحر ہائے حسینا(۱)
تجھ بن کمریں ٹوٹی ہی جاتی ہیں اگرچند
ہم باندھتے ہیں کس کے کمر ہائے حسینا
دل سوختگی اپنی کی کیا شرح کریں ہائے
آنسو تو ہوئے جیسے شرر ہائے حسینا(۲)
جوں نقش قدم خاک میں ہم ملتے ہیں تجھ بن
پیدا نہیں کچھ تیرا اثر ہائے حسینا(۳)
منظور نجابت نہ شرافت نہ سیادت
اب عیب ہوئے سارے ہنر ہائے حسینا
وارث نہیں جو پانی دے تم پیاسے موؤں کو
باقی ہے سو بیمار پسر ہائے حسینا
تیرا ہی جگر تھا کہ ستم تونے یہ دیکھے
سب ٹکڑے ہوئے تیرے جگر ہائے حسینا
اس دشت میں یہ منفعت آکر کے اٹھائی
تو کھینچ گیا جی کا ضرر ہائے حسینا
جز جور و ستم کچھ نہیں دیتا ہے دکھائی
جاتی ہے جدھر اپنی نظر ہائے حسینا
کیا خانہ خرابی کا بیاں کرتے ترے ساتھ
اٹھتے ہی ترے لٹ گیا گھر ہائے حسینا(۴)
لالا کے بٹھاتے ہیں ہمیں راہگذر میں
تو جی سے گیا ہے جو گذر ہائے حسینا
اکبر کو کہ اصغر کو کہ قاسم کو کڑھیں ہم
کیا خاک برابر ہیں گہر ہائے حسینا
ایسا تو گیا اٹھ کے کہاں گھر سے کہ ہم تک
پھر آئی نہ کچھ خیرخبر ہائے حسینا
نے سایہ جہاں بیٹھیے نے سر پہ ہے چادر
ہے حال نہایت ہی بتر ہائے حسینا
ہم دست تلطف کے ترے اٹھتے ہی سارے
ہر خس کے ہوئے دست نگر ہائے حسینا
اس قوم سیہ رو نے زیادہ دہنی سے
کچھ کسر میں چھوڑی نہ کسر ہائے حسینا
کیا اکبر و قاسم ہیں سبھی حلق بریدہ
یہ پودے عجب لائے ثمر ہائے حسینا
بے خوف و خطر لوٹتے ہیں گھر کو مخالف
تو ہو تو ترا ہووے بھی ڈر ہائے حسینا(۵)
ہر سمت کو سر مارتے جنگل میں پھریں ہیں
اب جا کے تجھے ڈھونڈیں کدھر ہائے حسینا
ٹھہرے ہے کوئی جن و ملک تیری جگہ پر
یہ صبر نہ تھا حد بشر ہائے حسینا
لب خشک عزیز اپنے جو سب مارے پڑے ہیں
ہر لحظہ مژہ ہوتی ہے تر ہائے حسینا(۱)
کیا کیا نہ اذیت ہمیں دیتے ہیں گزندے
حیدر نہیں جس کا ہو خطر ہائے حسینا
انواع ستم دیکھتے ہیں تیرے موئے پر
کھول آنکھ ٹک انصاف تو کر ہائے حسینا
آگے بھی کہیں میرؔ جو کچھ بات رہی ہو
ہے لب پہ یہی شام و سحر ہائے حسینا
میر تقی میر