مرے سامنے والی کھڑکی میں اک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے افسوس یہ ہے کہ وہ مجھ سے کچھ اکھڑا اکھڑا رہتا ہے جس روز سے دیکھا ہے اس کو ہم شمع جلانا بھول گئے دل تھام کے ایسے بیٹھے ہیں کہیں آنا جانا بھول گئے اب آٹھ پہر ان آنکھوں میں وہ چنچل مکھڑا رہتا ہے مرے سامنے والی کھڑکی میں اک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے برسات بھی آ کر چلی گئی بادل بھی گرج کر برس گئے ارے اس کی ایک جھلک کو اے حسن کے مالک ترس گئے کب پیاس بجھے گی آنکھوں کی دن رات یہ دھڑکا رہتا ہے میرے سامنے والی کھڑکی میں۔ ۔۔