ہر ظلم ترا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
اے وقت مٹانا مجھے آسان نہیں ہے
انساں ہوں کوئی نقش کف پا تو نہیں ہوں
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
یہ دن تو مجھے ان کے تغافل نے دکھائے
میں گردش دوراں ترا مارا تو نہیں ہوں
ان کے لیے لڑ جاؤں گا تقدیر میں تجھ سے
حالانکہ کبھی تجھ سے میں الجھا تو نہیں ہوں
ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
کیوں شور بپا ہے ذرا دیکھو تو نکل کر
میں اس کی گلی سے ابھی گزرا تو نہیں ہوں
مضطرؔ مجھے کیوں دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی ان کا تماشا تو نہیں ہوں
آفتاب مضطر