خطرہ ہے زرداروں کو گرتی ہوئی دیواروں کو صدیوں کے بیماروں کو خطرے میں اسلام نہیں ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں نام نبیؐ کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں خطرہ ہے خونخواروں کو رنگ برنگی کاروں کو امریکہ کے پیاروں کو خطرے میں اسلام نہیں آج ہمارے نعروں سے لرزہ ہے بَپا ایوانوں میں بِک نا سکیں گے حسرت و ارمان اونچی سجی دُکانوں میں خطرہ ہے بٹ ماروں کو مغرب کے بازاروں کو چوروں کو مکاروں کو خطرے میں اسلام نہیں امن کا پرچم لے کر اٹھو ہر انسان سے پیار کرو اپنا تو منشور ہے جالبؔ سارے جہاں سے پیار کرو خطرہ ہے درباروں کو شاہوں کے غمخواروں کو نوابوں کو غداروں کو .خطرے میں اسلام نہیں
حبیب جالب