Iztirab

Iztirab

دستور

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے 
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے 
ایسے دستور کو صبح بے نور کو 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے 
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے 
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے 
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو 
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو 
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو 
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں 
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں 
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں 
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر 
.میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

حبیب جالب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *