Iztirab

Iztirab

حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے

حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے 
لیکن زمیں پہ بت نہ فلک پر خدا سنے 
فریاد عندلیب سے کانپے تمام باغ 
لیکن نہ گل نہ غنچہ نہ باد صبا سنے 
خود اپنی ہی صداؤں سے گونجے ہوئے ہیں کان 
کوئی کسی کی بات سنے بھی تو کیا سنے 
یہ بھی عجب طلسم ہے اے شورش حیات 
درد آشنا کی بات نہ درد آشنا سنے 
شاہوں کے دل تو سنگ ہیں شاہوں کا ذکر کیا 
یہ بھی نہیں کہ حال گدا کا گدا سنے 
عالم ہے یہ کہ گوش بشر تک ہے بے نیاز 
ہونا تھا یہ کہ بندہ کہے اور خدا سنے 
سنتے بھی ہیں جو لوگ تو یوں داستان غم 
جیسے یزید سانحۂ کربلا سنے 
ہاں اے خدائے عرش بریں و بتان فرش 
تم میں سے ہو کوئی تو مرا ماجرا سنے 
پشمینہ پوش راہ نشینوں کی التجا 
شاید کبھی وہ شاہد اطلس قبا سنے 
ہم نادر و یزید نہ حجاج ہیں نہ شمر 
.اللہ اور جوشؔ ہماری دعا سنے

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *