اب سوچتے ہیں بیٹھ کے گلشن کی فضا میں
اب سوچتے ہیں بیٹھ کے گلشن کی فضا میں صحرا میں ہمارا جو مکاں تھا تو کہاں تھا عامر اظہر Fazi Khan
اب سوچتے ہیں بیٹھ کے گلشن کی فضا میں صحرا میں ہمارا جو مکاں تھا تو کہاں تھا عامر اظہر Fazi Khan
عامرؔ کو ہمیں ڈھونڈ کے لائیں ہیں بہ مشکل کہتے ہیں وہ پہلے سے یہاں تھا تو کہاں تھا عامر اظہر Fazi Khan
کچھ بھی نہ دکھا معجزہ تھا ہی یہی عامرؔ کھولی گئیں زمزم سے بھگوئی ہوئی آنکھیں عامر اظہر Fazi Khan
چلو ایک کام کرتے ہیں ایسے بات کرتے ہیں کہ خاموش رہیں نہ تم کچھ بولو نہ میں کچھ بولوں نہ سنو تم کچھ نہ سنوں میں کچھ بس دیکھیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جب کہ سامنے نہ میں ہوں نہ تم مگر اس گفتگو کے بیچ میں اگر کہیں سے تم آ جاؤ
میں تم سے محبت کرتا ہوں کرتا ہوں محبت تم سے میں اس بات کی کوئی حد ہے کیا کہتا ہی رہوں ہر لہجے میں جس وقت جہاں دیکھا تھا تمہیں سوچا تھا نظر کا دھوکا ہے پر حسن تمہارا ایسا تھا رکھا ہی ہوا ہے دھوکے میں اک لمس میں کیا کیا ہاتھ آیا
پڑھ لے گا کوئی رات کی روئی ہوئی آنکھیں ہر سمت ہیں آرام سے سوئی ہوئی آنکھیں جن لوگوں کی منزل پہ نظر ہوتی ہے ہر دم ان کا ہی تماشا ہیں یہ کھوئی ہوئی آنکھیں دن بھر تو جمے رہتے ہیں پلکوں پہ وہی خواب کیوں ہوش میں لاتی نہیں دھوئی ہوئی آنکھیں آنکھوں
کب سے آدھا ہے ماہتاب مرا پورا ہوتا نہیں ہے خواب مرا جس کی چاہت ہی ایک نیکی ہو اس پہ قربان ہر ثواب مرا تیری دنیا ہے خواب کی دنیا میری آنکھوں میں ہے سراب مرا سرخ سا چاند اور سیاہ سی رات ان کی زلفوں میں ہو گلاب مرا مجھ کو دیوانگی کا