Iztirab

Iztirab

Habib Jalib Nazm

خطرے میں اسلام نہیں

خطرہ ہے زرداروں کو گرتی ہوئی دیواروں کو صدیوں کے بیماروں کو خطرے میں اسلام نہیں ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں نام نبیؐ کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں خطرہ ہے خونخواروں کو رنگ برنگی کاروں کو امریکہ کے پیاروں کو خطرے میں اسلام نہیں آج ہمارے نعروں سے […]

خطرے میں اسلام نہیں Read More »

دستور

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے کیوں ڈراتے ہو زنداں

دستور Read More »

جمہوریت

دس کروڑ انسانو زندگی سے بیگانو صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے خاک ایسے جینے پر یہ بھی کوئی جینا ہے بے شعور بھی تم کو بے شعور کہتے ہیں سوچتا ہوں یہ ناداں کس ہوا میں رہتے ہیں اور یہ قصیدہ گو فکر ہے یہی جن کو ہاتھ میں علم لے کر

جمہوریت Read More »

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا Read More »

مشیر

میں نے اس سے یہ کہا یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں ان کی فکر سو گئی ہر امید کی کرن ظلمتوں میں کھو گئی یہ خبر درست ہے ان کی موت ہو گئی بے شعور لوگ ہیں زندگی کا روگ ہیں اور تیرے پاس ہے ان کے درد کی دوا میں

مشیر Read More »

مولانا

بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا خدارا شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں یہ لگتی ہے مرے سینے پہ بن کر تیر مولانا نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے یہی ہے جرم میرا اور یہی تقصیر مولانا حقیقت کیا ہے

مولانا Read More »

عورت

بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا دیوار ہے وہ اب تک جس میں تجھے چنوایا دیوار کو آ توڑیں بازار کو آ ڈھائیں انصاف کی خاطر ہم سڑکوں پہ نکل آئیں مجبور کے سر پر ہے شاہی کا وہی سایا بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا تقدیر کے قدموں

عورت Read More »

14اگست

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے یہ سوچا

14اگست Read More »

ضابطہ

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ دل یہ ضابطہ ہے کہ غم کو نہ غم کہا جائے یہ ضابطہ ہے ستم کو کرم کہا جائے بیاں کروں نہ

ضابطہ Read More »

ماں

بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کے یہ بولی یہ دل کے مرے ٹکڑے یوں روئے مرے ہوتے میں دور کھڑی دیکھوں یہ مجھ سے نہیں ہوگا میں دور کھڑی دیکھوں اور اہل ستم کھیلیں خوں سے مرے بچوں کے دن رات یہاں ہولی بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کے یہ بولی یہ دل

ماں Read More »