معاملات عشق
کچھ حقیقت نہ پوچھو کیا ہے عشق حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ عشق بن تم کہو کہیں ہے کچھ عشق تھا جو رسول ہو آیا ان نے پیغام عشق پہنچایا عشق حق ہے کہیں نبی ہے کہیں ہے محمدؐ کہیں علیؓ ہے کہیں عشق عالی جناب […]
کچھ حقیقت نہ پوچھو کیا ہے عشق حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ عشق بن تم کہو کہیں ہے کچھ عشق تھا جو رسول ہو آیا ان نے پیغام عشق پہنچایا عشق حق ہے کہیں نبی ہے کہیں ہے محمدؐ کہیں علیؓ ہے کہیں عشق عالی جناب […]
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور محبت مسبب محبت سبب محبت سے آتے ہیں کار عجب محبت بن اس جا نہ آیا کوئی محبت سے خالی نہ پایا کوئی محبت ہی اس کارخانے میں ہے محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے محبت سے کس کو ہوا ہے
خوشا حال اس کا جو معدوم ہے کہ احوال اپنا تو معلوم ہے رہیں جان غمناک کو کاہشیں گئیں دل سے نومید سو خواہشیں زمانے نے رکھا مجھے متصل پراگندہ روزی پراگندہ دل گئی کب پریشانی روزگار رہا میں تو ہم طالع زلف یار وطن میں نہ اک صبح میں شام کی نہ پہنچی خبر
ضبط کروں میں کب تک آہ اب چل اے خامے بسم اللہ اب کر ٹک دل کا راز نہانی ثبت جریدہ میری زبانی یعنی میرؔ اک خستۂ غم تھا سر تا پا اندوہ و الم تھا آنکھ لڑی اس کی اک جاگہ بے خود ہوگئی جان آگہ صبر نے چاہی دل سے رخصت تاب نے
عشق ہے تازہ کار و تازہ خیال ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال دل میں جاکر کہیں تو درد ہوا کہیں سینے میں آہ سرد ہوا کہیں آنکھوں سے خون ہوکے بہا کہیں سر میں جنون ہو کے رہا کہیں رونا ہوا ندامت کا کہیں ہنسنا ہوا جراحت کا گہ نمک اس کو
ثناے جہاں آفریں ہے محال زباں اس میں جنبش کرے کیا مجال کمالات اس کے ہیں سب پر عیاں کرے کوئی حمد اس کی سو کیا بیاں کہوں کیا میں اس کی صفات کمال کہ ہے عقل کل یاں پریشاں خیال خرد کنہ میں اس کی حیران ہے گماں یاں پریشاں پشیمان ہے زمین و
دشت سے بستی میں آیا ایک مور زور تھا واں حسن کا رانی کے شور اڑ کے گھر راجا کے پہنچا بے قرار دیکھ اس کو ہوگیا حیران کار جاذبہ تھا حسن کا اس کے کمال جانور بھی ہوگیا محو جمال تھی نگہ رخسار پر حیرت کے ساتھ چشم تھی رفتار پر الفت کے ساتھ
خدا ایک فرقے میں مانا ہے عشق کہ نظم کل ان سب نے جانا ہے عشق نہ ہو عشق تو انس باہم نہ ہو نہ ہو درمیاں یہ تو عالم نہ ہو یہ آفت زمانے کی معروف ہے زمانے میں جو ہے سو ماؤف ہے نہیں اس سے خالی جہاں میں بشر سبھوں میں ہے
چلا آصف الدولہ بہر شکار نہاد بیاباں سے اٹھا غبار روانہ ہوئی فوج دریا کے رنگ لگا کانپنے ڈر سے شیر و پلنگ طیور آشیانوں سے جانے لگے وحوش اپنی جانیں چھپانے لگے سن آواز شیران نر ڈر گئے پلنگ و نمر خوف سے مر گئے جہاں ببر آیا نظر صید تھا بیاباں اسی پہن
پاؤ توفیق ٹک تو سر کو دھنو یہ بھی اک سانحہ ہے میرؔ سنو ہم کو درپیش تب سفر آیا جب کہ برسات سر ہی پر آیا ابر ہونے لگے سپید و سیاہ پانی رستوں میں کیچ ساری راہ بیچ میں ہوتے کچھ اگر اسباب منھ اٹھانے کی جی میں ہوتی تاب سو تو کمل