روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے راحت اندوری Fazi Khan
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے راحت اندوری Fazi Khan
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے راحت اندوری Fazi Khan
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے راحت اندوری Fazi Khan
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا راحت اندوری Fazi Khan
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے راحت اندوری Fazi Khan
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو راحت اندوری Fazi Khan
گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے راحت اندوری Fazi Khan
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے راحت اندوری Fazi Khan