Qamar Jalalvi
- 1887-4 October 1968
- Jalali, Aligarh, British India
Introduction
ان کی غزلوں کے درجزیل مجموعے ہیں.
رشک-ای-قمر.
اوج-ای-قمر.
تجلیات-ای-قمر.
غم-ای-جاودان.
آے ہیں وہ مزار پے.
دبا کے چل دیے سب قبر میں.
Ghazal
ان کی طرف سے ترک ملاقات ہو گئی
ان کی طرف سے ترک ملاقات ہو گئی ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی آئینہ دیکھنے میں نئی بات ہو گئی
اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں
اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو
نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے
نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے کہو کوئی کیسے محبت چھپا لے کرے کوئی کیا گر وہ آئیں یکایک نگاہوں کو روکے کہ
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے کہیں
مرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
مرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا نشیمن ہو نہ ہو یہ
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں اب نزع کا عالم ہے مجھ
سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا ہو
سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا ہو تو اے بت کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو غنچے کے چٹکنے پہ
حسن کب عشق کا ممنون وفا ہوتا ہے
حسن کب عشق کا ممنون وفا ہوتا ہے لاکھ پروانہ مرے شمع پہ کیا ہوتا ہے شغل صیاد یہی صبح و مسا ہوتا ہے قید
موسی سمجھے تھے ارماں نکل جائے گا
موسی سمجھے تھے ارماں نکل جائے گا یہ خبر ہی نہ تھی طور جل جائے گا میری بالیں پہ رونے سے کیا فائدہ کیا مری
یہ رستے میں کس سے ملاقات کر لی
یہ رستے میں کس سے ملاقات کر لی کہاں رہ گئے تھے بڑی رات کر لی شب غم کبھی در کو اٹھ اٹھ کے دیکھا
ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ
ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ عیاں سورج ہوا وقت سحر آہستہ آہستہ چٹک کر دی صدا غنچہ نے شاخ گل کی
راز دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے
راز دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے یہ تو وہ لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے وہ بھی کیا دور تھے ساقی ترے
Qita
کام آئیں شوخیاں نہ ادا کارگر ہوئی
کام آئیں شوخیاں نہ ادا کارگر ہوئی جو بات تھی تمہاری وہی بے اثر ہوئی خلوت میں جا کے ہنس دئے کیا اس سے فائدہ
رہا برسات میں اے شیخ میں سوکھا نہ تو سوکھا
رہا برسات میں اے شیخ میں سوکھا نہ تو سوکھا یہاں تو جس قدر بارش ہوئی اتنا لہو سوکھا بھرا تھا اس قدر پانی ہر
حالات گلستاں پہ بہت ہم نے نظر کی
حالات گلستاں پہ بہت ہم نے نظر کی اپنوں کے سوا بات کسی سے نہ کی ڈر کی صیاد کو دیتا ہے پتا نغمۂ بلبل
پڑھ چکے حسن کی تاریخ کو ہم تیرے بعد
پڑھ چکے حسن کی تاریخ کو ہم تیرے بعد عشق آگے نہ بڑھا ایک قدم تیرے بعد آج تک پھر کوئی تصویر نہ ایسی کھینچی
سکوں پسند جو دیوانگی مری ہوتی
سکوں پسند جو دیوانگی مری ہوتی خبر کسی کو نہ انجام عشق کی ہوتی غلط بتاتے ہو ناصح جو میری فریادیں خطا معاف محبت کسی
بوجھ اتنا بھر گئی تھی روح سبک نکل کے
بوجھ اتنا بھر گئی تھی روح سبک نکل کے اک اک کا منتظر تھا دو چار گام چل کے حالانکہ گھر سے تربت کچھ دور
فلک نامہرباں ہے مل رہے ہیں مہرباں پھر بھی
فلک نامہرباں ہے مل رہے ہیں مہرباں پھر بھی بہت کچھ مٹ چکے باقی ہیں الفت کے نشاں پھر بھی محبت دیکھیے ٹھکرا رہے ہیں
Sher
آئے ہیں وہ مریض محبت کو دیکھ کر
آئے ہیں وہ مریض محبت کو دیکھ کر آنسو بتا رہے ہیں کوئی بات ہو گئی قمر جلالوی
کم ظرفی حیات سے تنگ آ گیا تھا میں
کم ظرفی حیات سے تنگ آ گیا تھا میں اچھا ہوا قضا سے ملاقات ہو گئی قمر جلالوی
ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے وہ یقیناً سنے گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے
آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گوارہ نہیں
آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گوارہ نہیں عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا
طے ان سے روز حشر ملاقات ہو گئی
طے ان سے روز حشر ملاقات ہو گئی اتنی سی بات کتنی بڑی بات ہو گئی قمر جلالوی
اس لئے آرزو چھپائی ہے
اس لئے آرزو چھپائی ہے منہ سے نکلی ہوئی پرائی ہے قمر جلالوی
قمر ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی
قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو قمر جلالوی
سرمے کا تل بنا کے رخ لا جواب میں
سرمے کا تل بنا کے رخ لا جواب میں نقطہ بڑھا رہے ہو خدا کی کتاب میں قمر جلالوی
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو قمر جلالوی
قمر کسی سے بھی دل کا علاج ہو نہ سکا
قمرؔ کسی سے بھی دل کا علاج ہو نہ سکا ہم اپنا داغ دکھاتے رہے زمانے کو قمر جلالوی
شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام
شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام گیسوؤں کو کھول دو سورج چھپانے کے لئے قمر جلالوی
مدتیں ہوئیں اب تو جل کے آشیاں اپنا
مدتیں ہوئیں اب تو جل کے آشیاں اپنا آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتا ہوں قمر جلالوی