Iztirab

Iztirab

اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے

اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے 
ایک درد کی خاطر کتنے درد اپنائے 
تھک کے سو گیا سورج شام کے دھندلکوں میں 
آج بھی کئی غنچے پھول بن کے مرجھائے 
ہم ہنسے تو آنکھوں میں تیرنے لگی شبنم 
تم ہنسے تو گلشن نے تم پہ پھول برسائے 
اس گلی میں کیا کھویا اس گلی میں کیا پایا 
تشنہ کام پہنچے تھے تشنہ کام لوٹ آئے 
پھر رہی ہیں آنکھوں میں تیرے شہر کی گلیاں 
ڈوبتا ہوا سورج پھیلتے ہوئے سائے 
جالب ایک آوارہ الجھنوں کا گہوارہ 
.کون اس کو سمجھائے کون اس کو سلجھائے

حبیب جالب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *