جب کبھی پھولوں نے خوشبو کی تجارت کی ہے
پتی پتی نے ہواؤں سے شکایت کی ہے
یوں لگا جیسے کوئی عطر فضا میں گھل جائے
جب کسی بچے نے قرآں کی تلاوت کی ہے
جا نمازوں کی طرح نور میں اجلائی سحر
رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے
سر اٹھائے تھیں بہت سرخ ہوا میں پھر بھی
ہم نے پلکوں کے چراغوں کی حفاظت کی ہے
مجھے طوفان حوادث سے ڈرانے والو
حادثوں نے تو مرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے
آج اک دانۂ گندم کے بھی حق دار نہیں
ہم نے صدیوں انہیں کھیتوں پہ حکومت کی ہے
یہ ضروری تھا کہ ہم دیکھتے قلعوں کے جلال
عمر بھر ہم نے مزاروں کی زیارت کی ہے
راحت اندوری