Iztirab

Iztirab

جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے

جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے 
شبنم مری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے 
جس کی سر افلاک بڑی دھوم مچی ہے 
آشفتہ سری ہے مری آشفتہ سری ہے 
اپنی تو اجالوں کو ترستی ہیں نگاہیں 
سورج کہاں نکلا ہے کہاں صبح ہوئی ہے 
بچھڑی ہوئی راہوں سے جو گزرے ہیں کبھی ہم 
ہر گام پہ کھوئی ہوئی اک یاد ملی ہے 
اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری 
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے 
ہنسنے پہ نہ مجبور کرو لوگ ہنسیں گے 
حالات کی تفسیر تو چہرے پہ لکھی ہے 
مل جائیں کہیں وہ بھی تو ان کو بھی سنائیں 
.جالب یہ غزل جن کے لیے ہم نے کہی ہے

حبیب جالب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *