Iztirab

Iztirab

جمہوریت

دس کروڑ انسانو 
زندگی سے بیگانو 
صرف چند لوگوں نے 
حق تمہارا چھینا ہے 
خاک ایسے جینے پر 
یہ بھی کوئی جینا ہے 
بے شعور بھی تم کو 
بے شعور کہتے ہیں 
سوچتا ہوں یہ ناداں 
کس ہوا میں رہتے ہیں 
اور یہ قصیدہ گو 
فکر ہے یہی جن کو 
ہاتھ میں علم لے کر 
تم نہ اٹھ سکو لوگو 
کب تلک یہ خاموشی 
چلتے پھرتے زندانو 
دس کروڑ انسانو
 
یہ ملیں یہ جاگیریں 
کس کا خون پیتی ہیں 
بیرکوں میں یہ فوجیں 
کس کے بل پہ جیتی ہیں 
کس کی محنتوں کا پھل 
داشتائیں کھاتی ہیں 
جھونپڑوں سے رونے کی 
کیوں صدائیں آتی ہیں 
جب شباب پر آ کر 
کھیت لہلہاتا ہے 
کس کے نین روتے ہیں 
کون مسکراتا ہے 
کاش تم کبھی سمجھو 
کاش تم کبھی سمجھو 
کاش تم کبھی جانو 
دس کروڑ انسانو 
علم و فن کے رستے میں 
لاٹھیوں کی یہ باڑیں 
کالجوں کے لڑکوں پر 
گولیوں کی بوچھاڑیں 
یہ کرائے کے غنڈے 
یادگار شب دیکھو 
کس قدر بھیانک ہے 
ظلم کا یہ ڈھب دیکھو 
رقص آتش و آہن 
دیکھتے ہی جاؤ گے 
دیکھتے ہی جاؤ گے 
ہوش میں نہ آؤ گے 
ہوش میں نہ آؤ گے 
اے خموش طوفانو 
دس کروڑ انسانو
 
سیکڑوں حسن ناصر 
ہیں شکار نفرت کے 
صبح و شام لٹتے ہیں 
قافلے محبت کے 
جب سے کالے باغوں نے 
آدمی کو گھیرا ہے 
مشعلیں کرو روشن 
دور تک اندھیرا ہے 
میرے دیس کی دھرتی 
پیار کو ترستی ہے 
پتھروں کی بارش ہی 
اس پہ کیوں برستی ہے 
ملک کو بچاؤ بھی 
ملک کے نگہبانو 
دس کروڑ انسانو 
بولنے پہ پابندی 
سوچنے پہ تعزیریں 
پاؤں میں غلامی کی 
آج بھی ہیں زنجیریں 
آج حرف آخر ہے 
بات چند لوگوں کی 
دن ہے چند لوگوں کا 
رات چند لوگوں کی 
اٹھ کے درد مندوں کے 
صبح و شام بدلو بھی 
جس میں تم نہیں شامل 
وہ نظام بدلو بھی 
دوستوں کو پہچانو 
دشمنوں کو پہچانو 
.دس کروڑ انسانو

حبیب جالب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *