Iztirab

Iztirab

درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے

درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے 
یہ کس نگر کو روانہ ہوئے ہیں گھر والے 
کہانیاں جو سناتے تھے عہد رفتہ کی 
نشاں وہ گردش ایام نے مٹا ڈالے 
میں شہر شہر پھرا ہوں اسی تمنا میں 
کسی کو اپنا کہوں کوئی مجھ کو اپنا لے 
صدا نہ دے کسی مہتاب کو اندھیروں میں 
لگا نہ دے یہ زمانہ زبان پر تالے 
کوئی کرن ہے یہاں تو کوئی کرن ہے وہاں 
دل و نگاہ نے کس درجہ روگ ہیں پالے 
ہمیں پہ ان کی نظر ہے ہمیں پہ ان کا کرم 
یہ اور بات یہاں اور بھی ہیں دل والے 
کچھ اور تجھ پہ کھلیں گی حقیقتیں جالب 
.جو ہو سکے تو کسی کا فریب بھی کھا لے

حبیب جالب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *