میرؔ خطاط یک قلم دیکھے
لیکن آغا سے لوگ کم دیکھے
یعنی عبدالرشید تھا استاد
خوشنویسی کی جن نے دی ہے داد
خط کی خوبی کا اس کے اب تک ڈھنگ
صفحۂ روزگار پر ہے رنگ
وہ تصرف کہیں جو کرتا ہے
شکل نقاش رنگ بھرتا ہے
حیرت افزا ہے حسن ہر تحریر
مشقی اس کی ہے قطعۂ تصویر
خط شیریں جو اس کا پاتے ہیں
ہم حلاوت بہت اٹھاتے ہیں
لگ گئی ہے قلم تو جادو ہے
مد جہاں ہے کسو کی ابرو ہے
سطر لکھتا نہیں خفی کی وہ
خط ہے خوباں کی پشت لب کا وہ
ایسا لکھنا کسو کی طاقت ہے
ہے جلی بھی تو ایک بابت ہے
خط میں کیسا ہی کوئی کامل ہو
اس کا کب نقطۂ مقابل ہو
حرف کس کس ادا سے لکھتا ہے
کون ایسی صفا سے لکھتا ہے
ہے الف قامت نکورویاں
لام ہے زلف سلسلہ مویاں
دال کا خم رہے ہے ایسا خوب
جیسے جھکتے ہیں مست ہو محبوب
میم جس لطف سے لبالب ہے
دہن تنگ مہوشاں کب ہے
ہے کشش فاژۂ تن خوباں
دائرہ دور دامن خوباں
دائرہ نوں کا اس نمط کھینچا
کہ خط دلبراں پہ خط کھینچا
مدعی کو جو خط دکھادیں ہم
جیسے حرف غلط اٹھادیں ہم
میر تقی میر