اس چرخ بے مدار کے کیا کیا کروں گلے
میرے جگر میں جیسے ستارے ہیں آبلے
تنکا سا ان نے جور و جفا کر سکھا دیا
پھر تس پہ میرے رونے نے مجھ کو بہا دیا
اس مجمع کمال کے گھر لے گیا بہ زور
جس کو تمام فنوں میں گویاکہ تھا عبور
توحید گر کہے تو وہ حق حق بہت کرے
ایسا بکے کہ بات تصوف میں ڈال دے
مصروف علم صرف کا تھا ایک اس سے حرف
پوچھو جو اسم آلہ سے تو بول اٹھے کہ ظرف
یہ سن کے تم ہنسو ہو تو وہ روکے ایک بار
کہنے لگے کہ اپنا یہ صیغہ نہیں ہے یار
کرتا ہو بحث نحو میں جس دم وہ مارگیر
ہر نحو کا ہے لفظ فقط حرف بارگیر
موضوع اپنا جانتا منطق کو تس اپر
محمول ابتدا ہی کو کہتا تھا بے خبر
وصف حذاقت اس کا بیاں کیجیے تو کیا
تجویز کرتا دیکھ کے مبطون کو سنا
فن بیاں میں کیسا ہے تشبیہ کس سے دوں
عالم کنایہ اس سے کیا ہے میں کیا کہوں
پوچھو مجاز کی جو حقیقت ہو لاعلاج
کہنے لگے کہ رات سے پھیکا ملا مزاج
اور لفظ بھی مزاج ہے ناداں نہ ہے مجاز
معنی کہے تو اس کے کہے قصۂ دراز
پھر معنی پوچھے حکمت و خلط و مزاج کے
انواع یوں بیاں کرے اس کے علاج کے
اس کی دوائیں کتنی مقرر ہیں طب کے بیچ
تعریض ایک ان میں ہے یعنی سیاہ کیچ
اس کا ضماد کرتے ہیں دوچار روز تک
پھر استعارہ دیویں ہیں تھوڑا کہ جائے پک
ہذیان معنی اس کا ہوا برطرف جہاں
پھر وہ مجاز مرسل اسے صبر کر وہاں
اجمالی معنی یہ کہے آخر کو یہ کہا
تفصیل کرنے کا تو دماغ اب نہیں رہا
علم معانی سے جو کیا ایک دن سوال
کہنے لگا حقیقت عقلی تو ہے محال
لیکن مجاز عقلی کو نادان یاد رکھ
یاں کون پوچھتا ہے دل اپنے کو شاد رکھ
ہے اب فصاحت اور بلاغت سو جانے دے
یہ دونوں عیب شعر میں اپنے نہ آنے دے
اک دن سوال علم قوافی سے میں کیا
کہنے لگا کہ قید نہیں اس میں مطلقا
تم آب قافیہ نہ کرو لفظ خاک کا
یا آتش اور باد کا زنجیر و تاک کا
لیکن مغائرہ ہو مقرر ردیف میں
آتا ہے یہ کچھ اپنے تو ذہن شریف میں
پھر شعر وصل و ہجر کے موزون تم کرو
عرصہ ہوا وسیع جو اب چاہو سو کہو
دعویٰ بتاؤں کیا ہے انھیں فن شعر کا
معنی جو قافیہ کے کوئی پوچھتا تھا آ
بے علم کرتا قافیہ تنگ اس کی جان پر
دے مارتا تھا ہاتھوں کو وہ اپنی ران پر
کہتا تھا ہائے ہائے مرے بعد ہوگا کیا
ان احمقوں کے جینے کے پیچھے تو مر گیا
پھر تربیت سے ان کی مجھے فائدہ بھلا
ٹوٹے ہے بکتے بکتے انھوں کے لیے گلا
مرجاؤں گا تو گور پہ میری نہ آئیں گے
دو کوزے آب کے بھی یہ ہرگز نہ لائیں گے
لیکن مجھے تو بخل نہیں ہے سنا عزیز
سنیو تو گوش دل سے اگر ہے تجھے تمیز
ایماں اشارہ رہنے دے کہتا ہوں اب صریح
اول ہی لفظ کا نہیں ہے قافیہ صحیح
میں جو سنا ہے کافیہ ہے چھوٹے کاف سے
پس پڑھنا تو غلط ہوا اب اس کا قاف سے
اور اس میں ایک نکتہ بھی کرتا ہوں میں بیاں
پھر بولا ہائے ہائے نہیں کوئی قدرداں
ورنہ مرے دہن کو جواہر سے پر کرے
یہ لعل اگلوں ہوں میں مجھے سر اپر دھرے
بارے وہ نکتہ یہ ہے لگا کہنے کر خطاب
ہے ایک علم جفر میں بھی کافیہ کتاب
تصحیح صرف ہوچکی اب معنی اس کے سن
ورنہ لگے ہے ذہن میں ان معنیوں کو گھن
استادوں سے سنا تھا جو میں نے نہیں ہے یاد
اور اب جہاں کے بیچ نہیں کوئی اوستاد
ہر اک سے پوچھنے کو نہیں چاہتا ہے جی
لائق نہیں جو پوچھیے اب قافیہ روی
یہ کہہ کے بولا آپ ہی کہنے کا کیا حصول
اس معنی کو کہے یہ مرے کیجیو قبول
اس شخص کا جو حدث ہے سو یہ ہے میرے یار
ہرچند اس کو گوز شتر جانے سب دیار
پر دید کر کہوں ہوں بنابر میں احتیاط
حرف غلط کا تانہ ہو معنی سے اختلاط
یا پھل ہے وہ سنا کا جو لگتا ہے جھاڑ میں
یا کاہ خشک ہے جو اگے ہے پہاڑ میں
گر پوچھتا کوئی کہ کسے کہتے ہیں روی
کہتا روی غلط ہے مجھے یاد ہے ردی
پھر جاکے کھول جد کی اپنے کتاب کو
کہتا مرے قیاس میں آتا ہے ہو نہ ہو
اغلب کہ اے عزیز وہ جنگل کی ہے جڑی
ہوتی ہے جس کی بیل ببولوں اپر پڑی
اک دن بدیع میں جو اسے امتحاں کیا
اک بار باز سامنے اس نے دہاں کیا
کر جمع قلب مستوی و قلب بعض کو
کہنے لگا کہ عکس ہے اکثر کہاں ہے دو
حالانکہ تین صنعتیں کی جاتیاں بیاں
اور ایک سمجھا ان کے تئیں ایسے ہیں کہاں
پوچھا جو اس سے معنی ایہام کے تئیں
دینے لگا نشاں مجھے اک نام کے تئیں
یعنی تھا ایک وقت میں اک پہلوان زور
دو انگلیوں سے ان نے اکھاڑے تھے شاخ گور
بہرام گور اس ہی کو کہتے ہیں سب عوام
درگور یہ تمام کہ کتنے ہیں ناتمام
تجنیس کا سوال کیا اس سے ایک روز
کہنے لگا اس اسپ کو کہتے ہیں جو ہو یوز
نادان تونے اسپ مجنس نہیں سنا
مشتق اسی سے جانے ہے جو ہے پڑھا گنا
لاتے جہاں ہیں شعر میں تجنیس شاعراں
مذکور ان سے ہوتے ہیں گھوڑوں کے وصف واں
میں نے کہا کہ کہتے ہیں تم کو عروض داں
بحر رمل کی مجھ سے حقیقت کرو بیاں
بولا کہ تیری عقل سے آتا ہے بس عجب
دریا کا ایک نام ہے پھر کیا کہوں سبب
پھر میں کیا سوال بصد انکسار و عجز
بحر طویل بحر مدید اور بحر رجز
ان میں جو ہے گا فاصلہ مجھ کو بتایئے
کامل سے مل کے حیف ہے ناقص جو جایئے
بولا کہ تجھ کو عقل نہیں تاکجا کہوں
یوں تربیت میں تجھ سے کی میں کب تلک رہوں
یہ تینوں رودخانے ہیں دہر بسیط میں
ملتے ہیں رفتہ رفتہ سبھی جا محیط میں
پھر آپھی آپ بولا کہ اک اور افادہ سن
گر قابل اپنے ہونے کی دل میں رکھے ہے دھن
بحر طویل ایک ہے دریا بہت بڑا
بحر خفیف ایک ہے پاس اس کے آبنا
تمثیل اس کی ڈھونڈنے اب جایئے کہاں
جمنا کے پاس جیسے ہے ہینڈن تمھارے ہاں
تشریح میں بھی ایک تھا وہ تلخ بے مثال
ہر استخواں کو کہنے لگا نیم کی ہے چھال
تاریخ داں تھا قطع نظر سب کمال کے
کرتا سخن ضرور ہے نبیوں کے حال کے
کہنے لگا تمھارے پیمبر کے عہد میں
تاریخ میں جو دیکھا تو عیسیٰ تھا مہد میں
یکبارگی غصا اٹھے دجال کے اپر
پھر تب سے مجھ کو علم نہیں ہے کہ ہیں کدھر
علم نجوم میں بھی بڑا تھا اسے کمال
شاید کہ اس ستارے کا ہے گا حمل وبال
اک دن کیا سوال شہان سلف سے میں
پرویز کے انھوں میں خصوصاً خلف سے میں
اس نے کہا کہ خوب کہا طرفہ نقل ہے
رکھتا ہے حافظہ میں اسے جس کو عقل ہے
امرد تھا ایک ان دنوں شیریں تھا اس کا نام
یہ اس کی دشمنی میں ہوا یوں ہی تلخ کام
یہ سن کے مارا خسرو پرویز نے اسے
بے دم کیا ہے خنجر تبریز نے اسے
ہے ماجرا یہی جو کہے کوئی کیا ہے کہہ
اور شعر جو زباں سے پڑھا اپنی سو ہے یہ
از آب زر بہ خنجر شیرویہ نقش بود
کیں را نسب بہ تیشۂ فرہاد می رسد
گنتا تھا خوب آپ کو علم حساب میں
لیکن بیاں وہ کرتا نہیں جو کتاب میں
کہتا تھا جفت پانچ کا ہوتا ہے کر شمار
گر دیکھیے تو اس کو وہ ہووے ہزار بار
پھر طرفہ ہے یہ کہتا اگر ہے نہ چار طاق
پس کیوں لکھا لغت میں عناصر کو چار طاق
علم لغت میں عمر بھی اس کی ہوئی تھی صرف
کرتا سوال اس سے جو جاکر میں ایک حرف
مثلاً کہا کہ نخل ہے کیا اس کو کر بیاں
وہ در جواب اس کے وہیں کھول کر زباں
بولا کہ اک جزیرۂ سمت فرنگ کو
مارا تھا ان فرنگیوں نے اس نہنگ کو
اب خاک سے نہنگ کی واں اک نہال ہے
شیر و پلنگ کا وہ سدا پائمال ہے
اس کے ثمر کو بعض تو کہتے ہیں تاڑ پھل
بے مغزوں کا جو فرقہ ہے کہتا ہے ناریل
کہتا ہے کوئی مکہ کا خرما ہے اس کا بیج
اک کہتے ہیں فرنگ میں ہے ایک بادلیج
جس کی صدا سے گوش صدف بحر میں ہے کر
صدمہ سے جس کے ٹوٹ گئی کوہ کی کمر
یہ کچھ لکھا ہے ساری لغت کی کتابوں میں
زبدہ ضریری شرح وقایہ کے بابوں میں
تحقیق اپنی یہ ہے کہ ہے نخل اصل حرف
تصحیف ہوگئے سے جو ہوتا ہے خ سے خرف
وہ نخل کیا کہ جانور و چارپایہ ہے
دم اتنی لمبی ہے کہ وہی سر کا سایہ ہے
سوداگر اس سے بار کریں ہیں چنار کو
اس پر بناتے ہیں گے رہوں میں منار کو
سر کے میں اس کے بالوں کا بھی کرتے ہیں اچار
اس ہی کو کہتے ہیں گے مدائن میں سوسمار
یہ کہہ کے آپھی بولا بآں ریش اور فش
آتا ہے جوکہ اپنے تئیں سو ہے پیش کش
کرتا تھا شہ کمانی میں اپنے تئیں دخیل
زاغ کماں کو دیکھ کے کہتا کہ ہے یہ چیل
دعویٰ تھا علم تیر میں اس کو بہت بڑا
پر لے کے لیس ہاتھ میں ہوتا جو وہ کھڑا
پھر دیکھ بھال اس کو وہ کہتا کہ مجھ کو بھی
معلوم کیا ہے خوب ولیکن یہ ہے وہی
جب سوکھتا ہے اس کی سلاخوں کا کر خمیر
چاکوں اپر کمھار بناتے ہیں لیس و تیر
غرہ تھا ڈھولک اپنی بجانے پہ اور کبھو
آتا جو کوئی ہاتھ میں لے اس کے روبرو
اس پر لگا ٹکور تعجب سے پھر شتاب
کہتا روئی بھری ہے بہت اس میں داب داب
آواز خوش کی اس کی گلوسوزی میں نہ بول
گاتا تو باجتا تھا گلا جیسے پھوٹا ڈھول
لکڑی بھی پھینکتا تھا بہت خوب سج سے وہ
ہوتا تھا کج بہت جو کھڑا ہوتا دھج سے وہ
شاگرد اس کا پوچھتا گر اس سے آن کر
مونڈھے اپر لگاتے ہیں جو وار تان کر
اس کو اگر کہیں تو کہیں کیا وہ سر اٹھا
کہتا کڑک وہی ہے جو تجھ کو دیا بتا
تھا گھوڑے کا بھی خوب مبصر وہ خر ولیک
اک میرے مہربان تھے گھوڑا تھا ان کا ایک
گھوڑے کی آنکھ پر تھی رسولی پہ گندہ تر
رہتی تھی اس کمیت کی وہ حائل نظر
تشریف لائے ذات شریف اس جگہ کہیں
واں گھوڑوں کی رسولی کی تھیں باتیں چل رہیں
کہنے لگا کہ ایک نظر مجھ کو بھی دکھاؤ
یہ چشم ہے خدا سے کہ اس کا اثر نہ پاؤ
اس گھوڑے کے سوار کے پھر جی میں آگیا
کھلوا منگایا تھان سے وہ اسپ انکھ مندا
لاگا سئیس سامنے اس کے پھر آونے
اور آنکھ اپنے گھوڑے کی اس کو دکھاونے
ہرچند انکھیاں پھاڑ کے دیکھے یہ ہر کہیں
اس کو تو پھوٹی آنکھوں سے پر سوجھتا نہیں
یک چشم دیکھ کہنے لگا نوچ نوچ حلق
گھوڑے کے موتھرا ہے رسولی کہے ہے خلق
پھر اس نظرپہ طرفہ تو یہ ہے کہ رو کے خوب
کہنے لگا کہ تب تو جہاں میں پڑی ہے ڈوب
شوخی کرے ہے ابلق ایام نابکار
ورنہ پیادے مجھ سے پھریں ایسے ہوں سوار
جو جو ہوئے ہیں چرخ سے مجھ پر ستم مدام
جیتا رہا تو میرؔ کروں گا گلے تمام
اپنی تو بدزبانی نہ تھی خامے کا شعار
پر یہ بھی ہے جریدۂ عالم میں یادگار
میر تقی میر