سر پر سات آکاش زمیں پر سات سمندر بکھرے ہیں
آنکھیں چھوٹی پڑ جاتی ہیں اتنے منظر بکھرے ہیں
زندہ رہنا کھیل نہیں ہے اس آباد خرابے میں
وہ بھی اکثر ٹوٹ گیا ہے ہم بھی اکثر بکھرے ہیں
اس بستی کے لوگوں سے جب باتیں کیں تو یہ جانا
دنیا بھر کو جوڑنے والے اندر اندر بکھرے ہیں
ان راتوں سے اپنا رشتہ جانے کیسا رشتہ ہے
نیندیں کمروں میں جاگی ہیں خواب چھتوں پر بکھرے ہیں
آنگن کے معصوم شجر نے ایک کہانی لکھی ہے
اتنے پھل شاخوں پہ نہیں تھے جتنے پتھر بکھرے ہیں
ساری دھرتی سارے موسم ایک ہی جیسے لگتے ہیں
آنکھوں آنکھوں قید ہوئے تھے منظر منظر بکھرے ہیں
راحت اندوری