سوال گھر نہیں بنیاد پر اٹھایا ہے ہمارے پاؤں کی مٹی نے سر اٹھایا ہے ہمیشہ سر پہ رہی اک چٹان رشتوں کی یہ بوجھ وہ ہے جسے عمر بھر اٹھایا ہے مری غلیل کے پتھر کا کارنامہ تھا مگر یہ کون ہے جس نے ثمر اٹھایا ہے یہی زمیں میں دبائے گا ایک دن ہم کو یہ آسمان جسے دوش پر اٹھایا ہے بلندیوں کو پتہ چل گیا کہ پھر میں نے ہوا کا ٹوٹا ہوا ایک پر اٹھایا ہے مہا بلی سے بغاوت بہت ضروری ہے قدم یہ ہم نے سمجھ سوچ کر اٹھایا ہے