مکرر ہے نواب کو قصد صید
بیابان پہناور اب ہوں گے قید
رواں بحر لشکر ہوا موج موج
گئی چشم خورشید تک گرد فوج
بحار و صحاری پہ ہے عرصہ تنگ
مگر یاں سراسیمہ ہیں واں پلنگ
پہن بیٹھے ہیں شیر ببری لباس
کریں لوگ شاید فقیری کا پاس
چکارے ہرن دونوں اندیشہ مند
دلوں میں ہراس کمان و کمند
کہیں گرگ وادی کو فکر گریز
نظر ایدھر اودھر کرے شیر تیز
بنوں میں ہے آشوب کوہوں میں ڈر
بیاباں وطن سارے گرم سفر
کہیں امن ہو تو کہوں واں گئے
نکل آکھروں سے پریشاں گئے
اسد کی نہ شیرانہ ہنکار ہے
نہ کفتار کو تاب رفتار ہے
جہاں کے تہاں فکر میں ہیں کھڑے
کہ دنگل سے جنگل میں کیا بن پڑے
ہوا دود باروت سے تیرہ رنگ
صداے تفنگ و صداے تفنگ
وحوش و ستوراں کو وحشت غضب
ہوا ہیں کھڑکتے ہی پتے کے سب
ہزاروں ہی بندوق ہر دم چلے
ہوا ہی میں پنچھی پکھیرو جلے
گئے بادخور آسماں میں پلٹ
کلنگوں کی صف باز نے دی الٹ
اڑے ہاتھ دوچار جرے کہاں
رہے مرغ آبی جہاں کے تہاں
پر تیر جس دم کشادہ ہوئے
بزے صید حد سے زیادہ ہوئے
بنوں میں مچی دھوم سی آکے دھوم
جہاں دیکھیے ہے قیامت ہجوم
کہیں ارنے مارے غضنفر کہیں
کہیں ہاتھی نکلا ہے اژدر کہیں
پڑے مست ہاتھی جو تھے من چلے
سن اس شور کو چھوڑ کر بن چلے
نہ تیرہ ہے روز گوزنان و گور
کہ شیروں کو بھی قشعریرہ ہے زور
لب آب جاکر جو کھیلے شکار
اسد واں کے تھے کودک نے سوار
ہوئے قرقرے صید ہو ہو کے ڈھیر
ہوا میں سے بھاگا عقاب دلیر
زغن ان بنوں میں نہ پائی گئی
نہ تغدار کی لاش اٹھائی گئی
ہوا ہے یہی تو یہ ہونی نہیں
کہ ہو خاد آکر سیہ یاں کہیں
جگر کیا کہ پرزن ہو اس بن میں زاغ
یہ زہرہ نہیں رکھتے کوہی کلاغ
شترمرغ سیمرغ ازبس ہراس
نہیں آتے کوہ شمالی کے پاس
غزل کہہ کہ ہے میرؔ لطف ہوا
بیاباں خوش آئندہ و خوش فضا
غزل
سبزہ ہے آبجو ہے فصل بہار بھی ہے
سرگرم جلوہ دیکھو پہلو میں یار بھی ہے
یہ تو نہیں کہ ہم پر ہر دم ہے بے دماغی
آنکھیں دکھاتے ہیں تو چتون میں پیار بھی ہے
گل ہم کنار ہوگا ہنس کر کبھو چمن میں
پر کم بغل ہے بلبل اس کو قرار بھی ہے
ہوں وعدہ گاہ میں تو پر میں ہی جانتا ہوں
کچھ اضطراب بھی ہے کچھ انتظار بھی ہے
جوں موج ہم بغل ہوں نایاب اس گہر سے
دریا کی سیر بھی ہے بوس و کنار بھی ہے
ہم جبریوں سے کیا ہو بے دست و پا و عاجز
کہنے کو کہتے ہیں تو کچھ اختیار بھی ہے
کون اس بھبھوکے سا ہے دیکھو نہ ٹک بھی تو وہ
شمع و چراغ و شعلہ برق و شرار بھی ہے
جانا مسلم آیا اس خاکداں سے گو پھر
مشکل گذر ہے رستہ گرد و غبار بھی ہے
دل تنگ میرؔ کیوں ہے ہمرہ وزیر کے تو
دریا فضا ہوا ہے سیر و شکار بھی ہے
اٹھا فوج میں سے یہ گرد و غبار
کہ منھ پر تھا خورشید آئینہ وار
فلک کہرے سے تھا دھواں سا نمود
سماں شب کا رکھتا تھا ملک شہود
زمیں تھی سو تھی فرش بالاے آب
تحلحل سے مطلق نہ رکھتی تھی تاب
نہ پوچھو کہ لوگوں کا کیا حال تھا
جو رکھے قدم واں تو بھونچال تھا
روندے لگے چلنے تیزی سے چال
ہوا مذہب شیعیاں اعتزال
کسی ڈھب سے جوں توں کے چلنا ہوا
عجب مہلکے سے نکلنا ہوا
اتر لوگ دریا سے آگے گئے
ہزبران خونخوار بھاگے گئے
پلنگان مردم در ایسے ڈرے
کہ جاتے ہیں کوہوں کے چھوڑے درے
بیاباں میں مرنا کہاں سر دھریں
نہ لیں راہ بر عرب کیا کریں
غزل میرؔ یاں کہہ اگر ہو دماغ
رکے دل ہمارے بھی ہوں باغ باغ
غزل
تھی باد بھی آنے کی چمن میں نہ روادار
پر کیجیے کیا گل کی صبا بھی ہے ہوادار
شائستۂ دیدن ہے مرے یار کی صحبت
وہ صاحب ناخواہ ہے بندہ ہے وفادار
کیا خوب ہو کیا زشت ہو رو دیوے ہے سب کو
اس عرصہ میں آئینہ کو دیکھا ہے ہوادار
کس طور سے یک رنگ ہوں یے عاشق و معشوق
ہے گل کنے زر بلبل بے برگ ہے نادار
کیا بیکسی سے میرؔ نے رحلت کی جہاں سے
رویا نہ کوئی اس پہ نہ کوئی ہے عزادار
بنوں میں پھرا کرتے ہیں ہم تو دیر
نہیں بولتے ڈر سے غرندہ شیر
رہے تھے جو فیلان مست آن کر
گئے کجلی بن یاں سے ڈر مان کر
جو ان میں سے آکر لڑا پھر دیا
سو کٹھ بندھنوں سے ہوا فیل پا
گریوے کہیں تھے بلند اور پست
پھر اڑتے تھے واں جیسے پیلان مست
بہی تیغ نواب اس طور سے
بہے جدول تیز جس طور سے
بہت رہ گئے زیر شمشیر و تیر
بہت آئے لشکر میں ہو کر اسیر
لدے ہاتھیوں پر جو ہوکر شکار
ہوئیں بوجھ سے پشت فیلاں فگار
کیے گم جو گینڈے نے اپنے حواس
کھڑا ہو رہا آکے بھینسوں کے پاس
کہ بھینس اس کو بھی جان کر لشکری
چلے جائیں صرصر نمط سرسری
نہ چھوڑا ہے طیر ایک عصفور تک
نہ وحشی کپی اور لنگور تک
لگے جاکے شاہین دستور یوں
پڑے بکریوں میں کہن گرگ جیوں
کلنگ ایسے بازوں سے آئے ستوہ
کہ کابل سے آگے گئے صد کروہ
نہیں قوچ سرزن نہ ایل نہ رنگ
ہوئے قید یا صید کیا بے درنگ
غضب کرگئے جرے نواب کے
اڑا کھا گئے خیل سرخاب کے
نہ لگ لگ نہ تیتر رہا دشت میں
نہ غم خوارک آیا نظر گشت میں
سبھوں میں جو تھے قاز و سارس سرس
ہوئے صید یوں جن پہ آیا ترس
حواصل کو ہوتا اگر حوصلہ
تو گرتا نہ کھیتوں میں ہو دہ دلہ
کہیں سارے طاؤس مرتے گئے
ادھر لوگ افسوس کرتے گئے
کہیں جی اٹھی تھی زمیں بعد مرگ
نہال اس کے خوش قد بسیار برگ
نہ بستی سے صحرا تلک سبز تھے
نظر جائے جس جا تلک سبز تھے
ہوا دلکش و ہر طرف سبزہ زار
کہ سرسوں نے کی تھی قیامت بہار
کھڑے لوگ محو تماشا تھے واں
کہ کہنے لگی بلبل خوش زباں
کہ خاطر جنوں سے نہ رکھتے نچنت
خبر بھی ہے تم کو کہ آئی بسنت
یہ عہد جنوں ہے جنوں کیجیے
جگر کو غزل کہتے خوں کیجیے
غزل
بلبل کے بولنے سے آزار دل نے پایا
کیا کہہ گئی کہ ہم کو سنتے ہی غش سا آیا
نخچیرگہ میں اس کے جاتا نہیں ہے کوئی
ہم کو تو شوق مفرط واں کا لگا کے لایا
انواع رنج ہم نے کھینچے تھے عاشقی میں
پر ہجر کے الم نے چنگا بہت بنایا
صوفی صاف مشرب بے ہوش و بے خرد ہیں
مستی نے اس نگہ کی مجلس کے تیں چھکایا
مہر و وفا و الفت کرتے تھے لوگ باہم
رحمت خدا کی تم نے اس رسم کو اٹھایا
سر مارے تو پری کو ایسی روش نہ آئے
کس ناز سے زمیں پر پڑتا ہے اس کا سایا
یہ جانتا تو ہرگز بازار میں نہ جاتا
یوسفؑ کے طور میں بھی سستا بہت بکایا
غیرت سے عاشقی کے جاتا نہیں ہوں میں تو
وہ خود بہ خود ہی آوے کاش اس طرف خدایا
معشوق تو ہے پر وہ اوباش کج روش ہے
کیا کہیے میرؔ جی سے دل کو کہاں لگایا
کسو ایسے جنگل میں جانا ہوا
کہ مشکل قدم کا اٹھانا ہوا
نظر گرد لشکر پہ تھی دم بہ دم
نہ تھا واں کے ضیغم کو کچھ اور غم
کوئی ارسلاں بھیجتا گر رسول
تو شاید کہ الحاح ہوتی قبول
سو وے خوں گرفتہ تو بھولے ہوئے
بہت اپنے زوروں پہ پھولے ہوئے
چلے ہر طرف اب جو آکر تفنگ
نہ اوقات صلح و نہ ہنگام جنگ
لگی آگ جنگل میں چارہ گیا
بن آئی نہ کچھ مفت مارا گیا
ہوا چہرہ کوئی تو جوں شیر سنگ
نہ شیری دلیری نہ چہرے پہ رنگ
لگی گولی پڑنے نہ پھر چل سکا
نہ جاگہ سے اکسا نہ ٹک ہل سکا
چلے ہم جو بہڑاچ سے پیشتر
ہوئے صید دریا کے واں بیشتر
بھرے فرط ہی سے تو دیہات شہر
کہے تو کہ سوتے رہے رود و نہر
گھٹے گولیوں سے مگر بے شمار
رہے سونس گھڑیال چندیں ہزار
جو کچھ زخم پانی میں لے کر گئے
وہیں ہو کے ناسور مر مر گئے
لگا کہنے باخہ سر اپنا جھکا
کہ پانی تو جالوں سے سارا رکا
اگر جایئے تہ کو دھنس جایئے
وگر گاڑیے سر تو پھنس جایئے
عجب مخمصہ ہے بچے کیونکے جان
یہی موت ہے سوجھتی ہے ندان
جواب اس کا گھڑیال نے یوں دیا
گھڑی ایک دو کا ہے قصہ رہا
پڑی سر پہ بجتی ہے فرصت نہیں
پہر اس کو کھنچتے ہیں اب کیا کہیں
تحمل ہو کچھ بھی تو تدبیر ہو
کریں کیا اگر یوں ہی تقدیر ہو
کوئی دشت یک دست نے زار تھا
رکھے واں قدم پاؤں افگار تھا
یہی سینک یا کانس پانی کی گھاس
زمین و ہوا آب و آتش اداس
کہیں دوں لگی ہے تمامی ہے دود
کہیں دو شجر ہیں سو کیا بدنمود
نہ پتہ نہ شاخیں نہ کچھ ان کو بار
سراپا ہے خشک و زبوں زرد و زار
نہ سائے سے ان کے کوئی بہرہ مند
نہ دیکھا چرندہ نہ آیا پرند
سیاہی نہ ہرنوں کی ڈاروں نے کی
نہ چشمک کہیں سے چکاروں نے کی
کہیں لپٹے آپس میں دو چار نے
کہیں ہاتھی آیا کہیں شیر نے
کہیں سرپتا سر پہ تھا جیسے تیغ
روندوں کے پاؤں پہ آیا دریغ
نہ بلبل غزل خواں نہ طیروں کا شور
سبھی دیکھتے میرؔ کے منھ کی اور
سو ان نے غزل سست سی یہ کہی
ولے دل کو لوگوں کے لگتی رہی
غزل
ذوق شکار اس کو ہے اتنا کہ حد نہیں
کس اس کے تیغ کش پہ ملک کو حسد نہیں
خالی پڑے ہیں صید سے وادی و کوہسار
رہنے دو وحش و طیر کو اب دام و دد نہیں
بے جد و کد جو اس سے ملاقات ہو تو ہو
تم کد سے دیکھو ہو کہ ہمیں اس کی کد نہیں
کچھ اور شے ہے خوب جو دیکھو رخ نگار
ہرچند گل بھی تازہ کھلا اتنا بد نہیں
اس بیکسی سے کون جہاں میں موا کہ میں
جز داغ سینہ آج چراغ لحد نہیں
کیا سرو و گل سے ہووے تسلی کہ اہل شوق
گل منھ نہیں ہے یار کا سرو اس کا قد نہیں
بے سوز دل کنھوں نے کہا ریختہ تو کیا
گفتار خام پیش عزیزاں سند نہیں
سو بار مست کعبے میں پکڑے گئے ہیں ہم
رسوائی کے طریق کے کچھ نابلد نہیں
لطف سخن بھی پیری میں رہتا نہیں ہے میرؔ
اب شعر ہم پڑھیں ہیں تو وہ شد و مد نہیں
کسو ایسے بن سے نکلنا ہوا
کہ کوسوں تلک اس میں چلنا ہوا
کشیدہ قد اس بن کے سارے درخت
چمن کے سے نوباوگاں سبز بخت
برابر برابر کھڑے سر بہ سر
پھرے دیر اودھر کو جاکر نظر
پرے چل کے آیا تراکم بہت
حواس اس میں جاکر ہوئے گم بہت
کہیں راہ نکلی تو چلتے پڑے
رہے پال و پرتل بہت واں کھڑے
کہ شاخوں نے جھک جھک ملائے تھے سر
بہت آگے جا جا کے آئے تھے پھر
وہی راہ درپیش و کثرت ہوئی
قیامت کے اوپر قیامت ہوئی
سروں پر ادھر توپ آئی چلی
پڑی تھی ادھر لوگوں میں کھلبلی
کہیں اسپ و اشتر کہیں فیل مست
زمیں ہر سر گام بالا و پست
گذر جس طرح اس طرح سے کیا
روندوں نے خون جگر ہی پیا
وہیں بیچ آیا میانہ مرا
کوئی دیکھتا رنج اٹھانا مرا
سواری سے مجھ کو ندامت ہوئی
کہ چاروں طرف سے ملامت ہوئی
لگے کہنے آیا فرنگی کہاں
کہ چوپالے کی رسم چھوڑے ہے یاں
جسے دیکھو چار ان نے رکھ کر کہار
لگا ہونے ہر صبح اس پر سوار
چلو ہی چلو ہے کہ بچ جائیو
کہ چوپالے کے پاس تم آئیو
روندے ادھر کے ادھر ہیں خراب
یہ جاتے ہیں مجرے کو بھاگے شتاب
چڑھے چار کے کاندھے جیتے ہی جی
لیا اٹکل اس سودے میں نفع بھی
کہ گھوڑے دیے چھوڑ یک بارگی
میانوں میں کرتے ہیں آوارگی
نہ اس حال سے اہل دفتر خبر
توجہ نہ عمدوں کی کچھ ہے ادھر
وگرنہ ہو قدغن کہ اب اہل کار
نہ رہنے دیں لشکر میں ڈولی سوار
نہ مانیں تو چوپالے دیویں الٹ
ابھی گھوڑے لیں ڈپٹیں ایک ہی ڈپٹ
کرو میرؔ بحر اور اب اختیار
مگر اس سے نکلیں در آبدار
غزل
جوجو ظلم کیے ہیں تم نے سو سو ہم نے اٹھائے ہیں
داغ جگر پہ جلائے ہیں چھاتی پہ جراحت کھائے ہیں
تیغ دریغ نہیں ہے اس کی بسمل گہ میں کسو سے بھی
ہیں تو شکار لاغر ہم پر ایک امید پر آئے ہیں
ٹل کر سامنے یوں بھی اب جو تیر ترازو ہو اس کا
کیا کیا لوہو پی کر دل کو اس پلے پر لائے ہیں
خم سے لگی میخانہ کے دیوار بھی اپنے گھر کی ہے
لطف پیر مغاں سے عجب کیا ہم آخر ہمسائے ہیں
شوق غم میں بے صبری ہے آہ کسو کو کیا کہیے
اچھے اپنے جی کو ہم نے آپ ہی روگ لگائے ہیں
محو سخن ہم فکر سخن میں رفتہ ہی بیٹھے رہتے ہیں
آپ کو جب کھویا ہے ہم نے تب یہ گوہر پائے ہیں
دیکھیں طرف ہے کون سی جس سے تیغ ناز بلند کرے
ہم نے بھی تو اس ہی جہت سے فرق نیاز جھکائے ہیں
تب تھے سپاہی اب ہیں جوگی آہ جوانی یوں کاٹی
ایسی تھوڑی رات میں ہم نے کیا کیا سوانگ بنائے ہیں
کس کو ایسی بے خبری تھی جس کے بولے تو چونکا
سو ٹھوکر نے ان پلکوں کی کتنے فتنے جگائے ہیں
کون وہ ایسا ظالم تھا استاد فن عیاری کا
اتنے سن میں جن نے تجھ کو ایسے فریب سکھائے ہیں
میرؔ مقدس آدمی ہیں تھے سبحہ بہ کف میخانے میں
صبح جو ہم بھی جا نکلے تو دیکھ کے کیا شرمائے ہیں
کیا ایک نالے سے ہم نے گذر
ہوئی قائم اس جا پہ حشر دگر
گرے گاڑی چھکڑے پیادے سوار
کہ مقصد تھا سب کا عبور ایک بار
گذارا جو فیلوں کا پہلا ہوا
ملا خاک میں آب چہلا ہوا
کمر تک لگے پھنسنے دلدل کے بیچ
کہ نالے کا پانی تھا یک دست کیچ
پھنسے گاؤ اشتر گرے بارخر
ہوئے اسپ و اشتر بھی زیر و زبر
اگرچند باندھے تھے وہ جسر خام
ہوئے ایک ریلے میں دونوں تمام
نہ دیکھے تھے آگے کبھو یہ سمیں
ولیکن خدا نے اتارا ہمیں
سلامت رہا اپنا اسباب سب
رہے لوگ لشکر کے کرتے عجب
چلے واں سے آگے بنڈیلا ملا
کیا ان نے ایک ایک کو دہ دلہ
عجب راہ پرخوف مشکل گزار
نہ ہوتے تھے معلوم ہاتھی سوار
خطر شیر کا شور بنگاہ کا
تعب واں کے جانے کا غم راہ کا
کہ جا و زمیں کچھ ہویدا نہ تھی
کہیں اس میں پگڈنڈی پیدا نہ تھی
گڑھے غار پاؤں کی لغزش بلا
چلی باؤ تو نے کی لرزش بلا
صدا برگ نے کی نہایت مہیب
طریق عجیب و مسافر غریب
جنوں پیشہ وہ دشت وحشت شعار
کہ فیل اس کے طفلان بازی مدار
کہیں پانی آیا سو حالت خراب
کہ تھا زیر کاہ اس میں ہر جاے آب
نہ ہاتھی نہ اسباب اپنے کنے
یہی اک میانہ بنے سو بنے
چنانچہ گئے راوتی کے کنار
نہ ربط آشنائی کسو سے نہ پیار
کھڑے ہم رہے ہاتھ پر رکھ کے ہاتھ
کریں پار جانے کی کس منھ سے بات
کہار اک میانے میں اپنے دیے
پھر اس کے جو تھے چاروں ہم نے لیے
چڑھ ان کے سر آں روے دریا ہوئے
ہوئے پانی پانی کہ رسوا ہوئے
نہ جانا کہ آتا ہے کس کا قدم
کہ صید بیاباں گئے کرکے رم
گوزن ایک دو مار لائے کبھو
اڑے باز جرے کہیں ایک سو
نہ صید ایک دیکھا بھرے لاکھ رنگ
غزل میرؔ نے بھی کہی اور ڈھنگ
غزل
اک درج موتیوں کے عوض ہاتھ آگیا
یوسفؑ ہزار حیف کہ سستا بکا گیا
جانا نہ تھا سرہانے سے مجھ مختصر کے ہائے
کیا وقت رہ گیا تھا کہ وہ منھ چھپا گیا
آشفتہ سر ہیں سرو و گریباں دریدہ گل
بیٹھا کہاں چمن میں کہ فتنہ اٹھا گیا
گل برگ سے بھرے تھے کہے تو کنار و جیب
کیا کیا سمیں نہ گریۂ خونیں دکھا گیا
خط بھیج کے بھی شوق کی باتیں چلی گئیں
قاصد کے پیچھے دور تلک میں لگا گیا
روتا ہوں یوں کہ برسے ہے شدت سے جیسے مینھ
جوں ابر میرے دل پہ غم عشق چھا گیا
جو نقش روزگار کے صفحے سے محو ہو
صورت پذیر پھر نہیں ہوتا مٹا گیا
ہستی مری کہ ہیچ تھی میں منفعل رہا
اس شرم سے ندان زمیں میں سما گیا
داغ دل خراب شبوں کو جلے ہے میرؔ
عشق اس خرابے میں بھی چراغ اک جلا گیا
چلے صبح گہ دامن کوہ کو
تماشاکناں فوج و انبوہ کو
درختوں میں چلنا تو دشوار تھا
ولے راستہ بھی قدم وار تھا
گزارا ہوا یوں ہی اک آدھ کوس
پٹیلے پہ ہنگامہ آرا تھی اوس
نیستاں میں چھپتا تھا گھوڑے سوار
اگر ہو تو واں شیر کا ہو شکار
نہ رہتے تھے سو شیر شرزہ بھی واں
نہ ہاتھی کے پاؤں کا پایا نشاں
عجب کشمکش درمیاں آگئی
بہیر اک بلا تھی جہاں آگئی
نہ ہلنے کی جاگہ نہ چلنے کو راہ
سروں پر کھڑے اسپ و فیل سپاہ
خطر فیل دشتی کا ہر ہر قدم
گئے شیر کے ہر قدم پر قدم
کنار آب کے لوگ اترے تمام
ہوئے دامن کوہ میں کچھ مقام
سر کوہ کیونکر نہ ہو چرخ ساے
کہ نواب واں سیر کرنے کو جائے
رہے آب پر فرش چوکی و تخت
خہے رود کوہ و زہے ان کے بخت
ہمارا تو جانے کو چاہا نہ جی
کہ تھے پیر ہم واں ہوا خوب تھی
رہی منعقد بزم تھا ناچ راگ
نہ ہو کچھ تو کیونکر ہو یہ دل کی لاگ
کہی اور ہی بحر میں یہ غزل
مگر میرؔ کو ہے دماغی خلل
غزل
کر لطف عارض مت چھپا عاشق سے اے یار اس قدر
یک جان کو یہ عارضے یک دل کو افکار اس قدر
جو کچھ ہے سو دل کے سبب غم غصہ و رنج و تعب
تھے چاہنے سے پیشتر کاہے کو بیمار اس قدر
ہر دم جو اس کے ابرواں جنبش میں ہیں کانپے ہے جاں
یعنی ہیں آنکھیں جھپتیاں چلتی ہے تلوار اس قدر
شب نالہ و زاری رہے دن خستگی خواری رہے
وہ دل نہیں باقی رہا کھینچے جو آزار اس قدر
وے دل زدے ہیں خستہ جاں مر جاتے ہیں جو ناگہاں
ورنہ قضا کس شخص کی پہنچی ہے یک بار اس قدر
طرے سے طراری کرے مستی میں ہشیاری کرے
آیا نظر اب تک نہیں طرار و عیار اس قدر
الفت کہاں کلفت ہے یاں یہ بھی عجب صحبت ہے میاں
بیزار وہ اس مرتبہ جس سے ہمیں پیار اس قدر
تم آگے کب تھے بدگماں سب حجت و یکسر زباں
اب اک سخن پر مہرباں کرتے ہو تکرار اس قدر
آنکھیں کھلی ہیں میرؔ کی جب دیکھو تب آئینہ ساں
آدم نہیں ہوتے کہیں مشتاق دیدار اس قدر
بہا سنگ ریزوں پہ اس رنگ آب
کہ قدر ان کی جوں قدر یاقوت ناب
لیے عمدے ہاتھوں میں دیکھیں بہار
کہ ہر شے کا ہے وقت لیل و نہار
اسی آب کا رابتی یاں ہے نام
ہمیں ساتھ اس کے ہے ربط تمام
کنارے کنارے اسی کے ہے راہ
چلے جاتے ہیں جو نہ ہووے پناہ
جہاں تک ہے آب و خور اب جائیں گے
سمیں دیکھیں گے جو نظر آئیں گے
جبل سے ہوئے ظاہر آثار آب
برسنے لگا قطرہ قطرہ سحاب
ہمیں پر نہیں کچھ ہوا کا ستم
کہیں گرگ وادی کو بھی ہے یہ غم
کہیں ایسے سکڑے ہیں حیوان دشت
کہ ٹکڑے کرو تو نہ ہوں گرم گشت
نہ نکلے ہے ہاتھی نہ بولے ہے شیر
کوئی یوز پکڑا ہے سو بعد دیر
اسد یک طرف یوز یک سو رہے
عجب یہ ہے باندھے گئے اژدہے
نہ پوچھو کھنچا دور کار شکار
نہ اب دشت و در میں نمر ہے نہ مار
شکارافگناں راہ کرتے تھے طے
ملے جاتے تھے خاک میں دشت نے
نہ ببروں کو جنگل میں طاقت رہی
نہ مگروں کو پانی میں فرصت رہی
اسد مارے جاتے تھے سگ کی مثال
بندھے آتے تھے یوز و گرگ و غزال
ملا ایک چقر اگر یا گڑھا
تو کثرت سے نو نیزہ پانی چڑھا
بہت مشکلوں سے کیا ہے عبور
کہ یک گام راہ اور سو سو فتور
غزل بحر کامل میں تہ دار کہہ
کہ اڑ جائے میرؔ اس بحیرے کی تہ
غزل
نہ دماغ ہے کہ کسو سے ہم کریں گفتگو غم یار میں
نہ فراغ ہے کہ فقیروں سے ملیں جا کے دلی دیار میں
نہ چمن میں جاتے رہا ہے دل نہ بنوں میں پھرنے لگا ہے دل
وہی بے کلی رہی جان کو رہے سیر میں نہ شکار میں
کہے کون صید رمیدہ سے کہ ادھر بھی پھر کے نظر کرے
کہ نقاب الٹے سوار ہے ترے پیچھے کوئی غبار میں
ترے شام خط کے قریب کی جو صفا میں دیکھی میں خوبیاں
نہ سمیں پہ گل میں نظر پڑے نہ یہ رنگ صبح بہار میں
کوئی شعلہ ہے کہ شرارہ ہے کہ ہوا ہے یہ کہ ستارہ ہے
یہی دل جو لے کے گڑیں گے ہم تو لگے گی آگ مزار میں
جھکی کچھ کہ جی میں چبھی سبھی ہلی ٹک کہ دل میں کھبی سبھی
یہ جو لاگ پلکوں میں اس کے ہے نہ چھری میں ہے نہ کٹار میں
مرے ایک دل میں جو غم یہ ہے سو فزوں ہے میرے شمار سے
نہ تو دس میں یہ نہ پچاس میں نہ تو سو میں یہ نہ ہزار میں
بڑے جانور خوار کیا کیا ہوئے
بندھے پاے فیلاں سے رسوا ہوئے
بہت نالے کھولے پکھالے گئے
بحیروں سے روہو نکالے گئے
مگر کی پس از مرگ عزت ہوئی
کہ ہاتھی پہ چڑھنے کی رخصت ہوئی
کشف کا ہوا ہے یہ اوصاف اب
کہ جھینگوں نے کی شرح کشاف اب
نہ تیتر بٹیر اور کبوتر ملا
دیے باز جروں کو سارے کھلا
کہیں بحری پانی میں یوں جا لگے
کہ پنجوں میں بے صید ادھر آ لگے
ہوا میں سے یوں کر اتارے کلنگ
کہ بازوں نے چڑیا سے مارے کلنگ
کسو اور ارنوں کو دیکھا کھڑے
کہے تو بیاباں میں ہاتھی پڑے
جگر کرکے جاتے تھے مردان کار
تو وہ ایک دو کر ہی لاتے شکار
وگرنہ بشر کا نہ مقدور تھا
قریب اس کے جانا بہت دور تھا
نہ ان چارشانوں کا روکش ہے شیر
نہ سو فیل دوچار رکھتے ہیں گھیر
مددگار تھے حضرت زندہ پیل
پکڑ لاتے تھے لوگ تب ژندہ پیل
بحیرہ نہ دریاے اعظم سے کم
اٹھا کرتے تھے لجے لطمے بہم
ہر اک موج اس کی سمندر کی لہر
کنارے پہ گرداب غرقاب قہر
یہی جنگل اس جھیل کے آس پاس
درختوں کا انبوہ نے کا اگاس
اسی بن میں شیر اور یوز و پلنگ
اسی بن میں گور و گوزن اور رنگ
اسی بن میں ہاتھی وہیں کرگدن
وہیں قوچ سرزن اسی میں ہرن
اسی بن میں لنگور بندر بھی تھے
وہیں ایک دو ہم قلندر بھی تھے
اسی بن میں پاڑھا وہیں نیل گاؤ
اسی بن میں یہ صیدبندی کا چاؤ
اسی بن میں تھے حضرت بوحمید
اسی بن میں نسناس ان کے مرید
اسی بن میں تھے خوک جاموش رنگ
کیا اس سوربن نے لوگوں کو تنگ
اسی بن میں رہنا اسی بن میں راہ
وہیں شام کا حسن لطف پگاہ
اسی بن میں وہ جھیل گہری بہت
ہوئے صید بری و بحری بہت
وہیں مچھلی بکتی تھی دمڑی کی سیر
ولیکن نہ کھاتا تھا ہو کوئی سیر
کہ اس آب کا ہضم دشوار تھا
کہ جوں آب شمشیر دم دار تھا
شغال اور خرگوش جی سے گئے
شکاری سگ ان کو اچک لے گئے
غزل سے لگا ہے بہت میرؔ دل
کہ اس مثنوی میں کہیں متصل
غزل
ہے گی طلب شرط یاں کچھ تو کیا چاہیے
بیٹھے نہیں بنتی میاں کچھ تو کیا چاہیے
عشق میں اے ہمرہاں کچھ تو کیا چاہیے
گریہ و شور و فغاں کچھ تو کیا چاہیے
ہاتھ رکھے ہاتھ پر بیٹھے ہو کیا بے خبر
چلنے کو ہے کارواں کچھ تو کیا چاہیے
میں جو کہا تنگ ہوں مار مروں کیا کروں
وہ بھی لگا کہنے ہاں کچھ تو کیا چاہیے
سون کسے رہنے کی کس نے بدی ہے بھلا
لطف و غضب مہرباں کچھ تو کیا چاہیے
کام اب اپنا ہے یاں کندن جاں ہر زماں
کیا کریں ہم ناتواں کچھ تو کیا چاہیے
کیا کروں دل خوں کروں شعر ہی موزوں کروں
چلتی ہے اب تک زباں کچھ تو کیا چاہیے
ہو نہ سکے گر نماز دل کی طرف کر نیاز
وقت گیا پھر کہاں کچھ تو کیا چاہیے
چاہوں کسو سے دعا دل کی کروں اب دوا
نفع ہو پھر یا زیاں کچھ تو کیا چاہیے
عمر گئی لغو سب وقت بہت کم ہے اب
کچھ نہ کیا ہائے میاں کچھ تو کیا چاہیے
یہ تو نہیں دوستی ہم سے جو تم کو رہی
پاس دل دوستاں کچھ تو کیا چاہیے
تونے کماں کی ہے زہ پر ہوں نہ یوں صید میں
میری بھی خاطر نشاں کچھ تو کیا چاہیے
میرؔ نہیں پیر تم کاہلی اللہ رے
نام خدا ہو جواں کچھ تو کیا چاہیے
کنارے پہ تھی اس کے اک گل زمیں
سراسر ہری جوں زمردنگیں
جہاں تک نظر جائے شاداب تھی
کہ یک دست واقع لب آب تھی
وہیں خیمے سب کے ہوئے تھے کھڑے
وہیں دام رہتے تھے اکثر پڑے
نواڑوں کی سیر اس میں ہر شام گہ
وہی سیرگاہ و وہی دام گہ
وہیں صید ہوں مرغ و ماہی تمام
مقام ایسے ہوویں تو کریے مقام
ہوا خیمہ آکر جو نواب کا
فلک ساے تھا فرق اس آب کا
ہوا ہوتا واں کاش دو آب رز
ہوئے جیسے شائستۂ سیر نز
عجب ڈھب سے کی روشنی صد عجب
کہ دیں چھوڑ ناویں دیے بھر کے سب
جدا ہوویں تو غنچہ غنچہ چراغ
ملے جیسے عاشق کی چھاتی کے داغ
ورے روشنی شعلہ انگیز نار
پرے سطح پانی کا آئینہ وار
ہوئیں کشتیاں کچھ ورے سے پرے
چراغوں سے موجوں کے کوچے بھرے
حبابوں میں تھی جو چراغوں کی تاب
حبابی تھا آئینہ سب سطح آب
نمودار چرخ پر انجم تھی شب
دیوں سے وہ پھیلاؤ پانی کا سب
غرض روشنی کی عجب کچھ تھی لاگ
لگا دی ہے گویاکہ پانی میں آگ
غزل میرؔ کوئی کہا چاہیے
کسو تو زمیں پر رہا چاہیے
غزل
کب آوے گا کیا جانے وہ سروقامت
ہمارے تو سر پر ابھی ہے قیامت
نماز سفر ہے اشارت اسی سے
کہ تھوڑا بہت یاں ہے وقت اقامت
رہا رابطہ غارت دل تلک بس
نہیں اب تو بندے سے صاحب سلامت
گریباں کو گل چاک کرنے لگیں گے
کھلے رکھ گلستاں میں بند قبا مت
اٹھاکر نہ یک زخم شمشیر اس کا
غزال حرم نے اٹھائی ملامت
بگڑتی ہے صورت علاقے سے دل کے
کسو بے وفا سے دل اپنا لگا مت
کوئی فصل گل میں بھی توبہ کرے ہے
رہے گی ہمیں دیر اس کی ندامت
کہیں دل کی لاگیں لگیں چھپتیاں ہیں
کہ چہرے کی زردی بڑی ہے علامت
گئی سو گئی پیشتر تھی جوانی
رہ عشق میں میرؔ آئندہ جا مت
زمانے میں ہے رسم کہنے کی کچھ
امید اس سے ہے نام رہنے کی کچھ
کسو سے ہوئی شاہنامے کی فکر
کہ محمود کا لوگ کرتے ہیں ذکر
گیا شاجہاں نامہ کہہ کر کلیم
دل شاعراں رشک سے ہے دونیم
کنھوں نے کہی عشق کی داستاں
ہوا کوئی کہانی سے ہم داستاں
پئے آصف الدولہ میں نے بھی میرؔ
کہے صیدنامے بہت بے نظیر
مگر نام نامی یہ مشہور ہو
گئے پر بھی لوگوں میں مذکور ہو
زہے آصف الدولۂ دادگر
سخنورنواز اور عاشق ہنر
دہش سے جہاں اس کے رونق پذیر
وزیر ابن دستور ابن وزیر
کریمی کرے تو جہاں در جہاں
کف جود خورشید سا زرفشاں
سراپاے احساں تمامی ہمم
ہمہ تن مروت سراسر کرم
ہمیشہ رہے گرم سیروشکار
یہ حرف و حکایت بھی ہے یادگار
قفاے غزل اک رباعی کہو
سخن آگے موقوف چپکے رہو
بہت کچھ کہا ہے کرو میرؔ بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس
جواہر تو کیا کیا دکھایا گیا
خریدار لیکن نہ پایا گیا
متاع ہنر پھیر لے کر چلو
بہت لکھنؤ میں رہے گھر چلو
غزل
کرو تامل کہ حال ہم میں رہا نہیں ہے غموں کے مارے
جو کچھ بھروسا جنھوں پہ تھا سو شکیب و تاب و تواں سدھارے
ہوئے ہیں غائر قیامت اب تو گئے جگر تک گئے ہیں دل تک
جو ٹک بھی دیکھے وہ غور سے تو جراحت اس کو دکھائیں سارے
ہماری آنکھیں بہی ہیں اتنی کہ اب ہے دریا محیط عالم
کہیں کہیں جو رہیں ہیں مردم سو بیٹھے ہیں وے کیے کنارے
کریں تحمل سو کاہے پر ہم مدام بے خود ہمیشہ غش ہے
گئی ہے طاقت دلوں سے شاید نہیں ہے آیا جگر ہمارے
کبھو سروں پر ہے تیغ نالہ کبھو سنان فغاں جگر پر
کسو سے کہنے کا کچھ بھی حاصل گئے ہیں جوں توں کے وقت بارے
بھری تھی آتش کہاں کی یارب دل و جگر میں کہ نصف شب کو
لگا جو رونے تو جاے آنسو مری مژہ سے گرے شرارے
قبول عشق و محبت اتنا ہوا ہے اے میرؔ سیر قابل
مدام جاتے دکھائی دوں ہوں کبھو نہ ان نے کہا کہ آرے
رباعی
چلنے کو ہوئے بادیے سے ہم جو کڑے
مل چلنے کے اتفاق بہتیرے پڑے
مجنوں نے کہا تھا میں بھی آتا ہوں میرؔ
آیا نہ رہے راہ میں ہم دیر کھڑے
میر تقی میر