فیض اور فیض کا غم بھولنے والا ہے کہیں موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں ہم سے جس وقت نے وہ شاہ سخن چھین لیا ہم کو وہ وقت الم بھولنے والا ہے کہیں ترے اشک اور بھی چمکائیں گی یادیں اس کی ہم کو وہ دیدہ نم بھولنے والا ہے کہیں کبھی زنداں میں کبھی دور وطن سے اے دوست جو کیا اس نے رقم بھولنے والا ہے کہیں آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالب .یہ مقدر کا ستم بھولنے والا ہے کہیں
حبیب جالب
![فیض اور فیض کا غم بھولنے والا ہے کہیں 1 IMG 20240311 005124](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2024/03/IMG_20240311_005124.jpg)