میرے اشکوں نے کئی آنکھوں میں جل تھل کر دیا
ایک پاگل نے بہت لوگوں کو پاگل کر دیا
اپنی پلکوں پر سجا کر میرے آنسو آپ نے
راستے کی دھول کو آنکھوں کا کاجل کر دیا
میں نے دل دے کر اسے کی تھی وفا کی ابتدا
اس نے دھوکہ دے کے یہ قصہ مکمل کر دیا
یہ ہوائیں کب نگاہیں پھیر لیں کس کو خبر
شہرتوں کا تخت جب ٹوٹا تو پیدل کر دیا
دیوتاؤں اور خداؤں کی لگائی آگ نے
دیکھتے ہی دیکھتے بستی کو جنگل کر دیا
زخم کی صورت نظر آتے ہیں چہروں کے نقوش
ہم نے آئینوں کو تہذیبوں کا مقتل کر دیا
شہر میں چرچا ہے آخر ایسی لڑکی کون ہے
جس نے اچھے خاصے اک شاعر کو پاگل کر دیا
راحت اندوری