Iztirab

Iztirab

14اگست

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری 
کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری 
وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا 
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا 
بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو 
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو 
گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے 
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے 
یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا 
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا 
نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی 
ملے گی سب کو دولت زندگی کی 
نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں 
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں 
کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا 
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا 
لٹی ہر گام پر امید اپنی 
محرم بن گئی ہر عید اپنی 
مسلط ہے سروں پر رات اب تک 
.وہی ہے صورت حالات اب تک

حبیب جالب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *